تم نے کیوں دیکھا مری جانب نگاہ ناز سے
مجھ کو یہ دھوکا ہوا بیدار قسمت ہو گئی! !
وہ نگاہ ناز، جس سے سینکڑوں پردے اٹھے
داغ نا کامی مرے دامان دل کو دھو گئی
ہو گیا خون تمنا میری رگ رگ میں رواں
فتنے جو سو ے ہوئے تھے لیکر انگڑائی اٹھے
چھا گیا دنیا پر افسون شباب جاوداں
بے نیاز ہوش ہو کر مست و سودائی اٹھے
تم نے دیکھا ہے اگر مجھ کو نگاہ لطف سے
نکتہ چیں سارا زمانہ ہے تو میں غم کیا کروں
جلوہ گر ہردم رہو میری نظر کے سامنے
دیکھنے کی تاب ہے جب تک، تمہیں دیکھا کروں
دل لیا ہے، روح بھی لے لو خدا کے واسطے
میں تمہارے واسطے ہوں، تم ہو میرے واسطے