تجھے دیوی بنا کر پوجتا ہوں دلکے مندر کی
ترے ہی گیت ساز دوجہاں پر گاتا رہتا ہوں
جبین شوق جھک کر تیرے قدموں سے نہیں اٹھتی
امیدوں سے دل معصوم کو بہلاتا رہتا ہوں
پجاری بن کے تیرا، بے نیاز دین و دنیا ہوں
تعلق اب خدا و حشر سے کچھ بھی نہیں مجھ کو
چمن میں رہ کے بھی اہل چمن سے دور رہتا ہوں
کہ ہردم دیکھتا ہوں میں گلوں کے روپ میں تجھ کو
'پجاری' اور'دیوی'، دیکھنے کو ہستیاں دو ہیں
مگر دونوں کی روحیں ایک ہیں کیف محبّت میں
'نیاز عشق' و 'ناز حسن' یوں تو مستیاں دو ہیں
مگر دل پر اثر ہے ایک دونوں کا حقیقت میں
یہ تقمیل جنوں ہے، حاصل صد بیقراری ہے
پجاری ہے کبھی دیوی، کبھی دیوی پجاری ہے