نالہ نارسا نہیں کچھ بھی
اب مجھے آسرا نہیں کچھ بھی
پوچھتے ہیں وہ،' کیا نہیں کچھ بھی'
کیا کہوں، حوصلہ نہیں کچھ بھی
ہو وفا یا جفا، محبّت کی
ابتدا، انتہا نہیں کچھ بھی
میں ہوں، کشتی ہے، موج طوفاں ہے
ساحل، اے ناخدا، نہیں کچھ بھی
روز کرتے ہیں یوں جفا مجھ پر
جیسے میری وفا نہیں کچھ بھی
گفتہ عقل کچھ تو ہے ورنہ
جو جنوں نے کہا نہیں کچھ بھی
کٹ گئی عمر پاۓ ساقی پر
تلخیوں کا گلا نہیں کچھ بھی
ہو مری خامشی پہ چیں بجبیں
ابھی میں نے کہا نہیں کچھ بھی
آزمائش اگر جفا سے نہ ہو
امتحان وفا نہیں کچھ بھی
میری دنیا میں کیوں سواۓ اجل
زندگی کا صلا نہیں کچھ بھی
وادئ غم میں لا کے چھوڈ دیا
اب کھلا، رہنما نہں کچھ بھی
اے ضیاء ان بتوں کے عشق میں کیوں
نا روا و روا نہیں کچھ بھی