مری دنیا ہے ویرانوں کی دنیا
تری دنیا، گلستانوں کی دنیا
خیال ان کا رفیق شام فرقت
منوّر ہے شبستانوں کی دنیا
مری رندی، مری مستی کا حاصل
تری آنکھوں کے پیمانوں کی دنیا
فلک کو اک نہ اک دن چھو ہی لے گی
بہت دانا ہے نادانوں کی دنیا
کسی کی کم نگاہی نے اجا ڈی
بسائی تھی جو ارمانوں کی دنیا
سکوں کا ایک لمحہ ڈھونڈتی ہے
پریشانوں، پشیمانوں کی دنیا
لہو ارزاں، گراں نان جویں ہے
کہاں ہے یہ تن آسانوں کی دنیا
مری فکروں میں ہستی کار فرما
مرے شعروں میں انسانوں کی دنیا
سجی بیٹھی ہے شب کی انجمن میں
چراغوں اور پروانوں کی دنیا
یہ کس کافر نے چھیڑا ساز مستی
لرز جاۓ نہ ایمانوں کی دنیا
ضیاء کیا راس آتی غمزدوں کو
یہ خوابوں اور افسانوں کی دنیا