اخلاق کی تعلیم ہے فرمان محمد
توحید کا دریا ہے مے عرفان محمد
ملتی ہے یہاں روح کو برنائی و تسکیں
ہے سایہ حق، سایہ دامان محمد
دام ہوس دھر سے ہوتے ہیں جو آزاد
ملتا ہے انھیں منصب خاصان محمد
گھٹتی گئی کوتاہی چشم و دل انساں
بڑھتی ہی گئی شوکت دیں، شان محمد
ہر نقش قدم ان کا نشان رہ منزل
سب قافلےوالے ہیں شناخوان محمد
پردے ابھی آنکھوں پہ جہالت کے پڑے ہیں
پاۓ کوئی کیسے در فیضان محمد
لکھی گئی دنیا میں ضیاء نور یقیں سے
انسان کی تاریخ بہ عنوان محمد