یہ طوفاں، یہ باد و باراں
یہ بپھری موجوں کے پیکاں
کشتی کا دل چھلنی چھلنی
کب یہ کالی رات ہے ڈھلنی
کب نکلےگا صبح کا تارا
مانجھی، کتنی دور کنارا
پانی کی دیوار کھڈی ہے
سر پر اک تلوار کھڈی ہے
گردوں پر چنگھاڑتے بادل
گردابوں کی مہلک ہلچل
قطرہ قطرہ ہے انگارا
مانجھی، کتنی دور کنارا
خالق طوفاں ہے یہ سمندر
دشمن انساں ہے یہ سمندر
کشتی موج سے ٹکراتی ہے
ہستی موت سے ڈر جاتی ہے
کب تک دیگی آس سہارا
مانجھی، کتنی دور کنارا
اٹھتی، گرتی، بڑھتی، موجیں
دھرتی کے سر چڑھتی موجیں
امن و سکوں کی ہاۓ گرانی
پانی، پانی، ہر سو پانی
اس کو ڈبویا، اس کو ابھرا
مانجھی، کتنی دور کنارا
اشکوں سے کیا کام چلے گا
ڈوبے گا جو ہاتھ ملے گا
دریاؤں سے سازش کر کے
ساگر کے ساغر کو بھر کے
دور سے کس نے مجھے پکارا
مانجھی، کتنی دور کنارا
ہر غم کا بچنا مشکل ہے
دھاروں سے بچنا مشکل ہے
غرقابی کس کو راس آئی
کس نے مر کر دنیا پائی
دیوانہ ہے عالم سارا
مانجھی، کتنی دور کنارا
چاند نے آ کر آفت ڈھائی
طغیانی نے دھوم مچائی
سمے قیامت کا آ پہنچا
قطرے قطرے کا دل دھڑکا
کچھ تو منہ سے بول خدارا
مانجھی، کتنی دور کنارا