خود سری کا بھرم نہ کھل جاے
آدمی کا بھرم نہ کھل جاے
تیرگی کا طلسم ٹوٹ گیا
روشنی کا بھرم نہ کھل جاے
موت کا راز فاش تو کر دوں
زندگی کا بھرم نہ کھل جاے
حسن مختار اور دل مجبور
عاشقی کا بھرم نہ کھل جاے
کون دیوانگی کو دے الزام
آگہی کا بھرم نہ کھل جاے
کیجے رہبروں کا کیا شکوہ
گمراہی کا بھرم نہ کھل جاے
امتحان وفا درست، مگر
جور ہی کا بھرم نہ کھل جاے
اے مغنی، غزل ضیاء کی نہ چھیڈ
شاعری کا بھرم نہ کھل جاے