بہار و شعر و موسیقی لئے دامان رنگیں میں
جوانی ہر نظر کو حسن کا پیغام دیتی ہے
امید و آرزو اور شوق کے ایوان رنگیں میں
شراب بے خودی کے جام صبح و شام دیتی ہے
جوانی سرمدی نغمے کچھ اس ڈھب سے سناتی ہے
جنہیں سنکر یقیں انساں کو آ جاتا ہے ہستی پر
کہیں چشمے بہاتی ہے، کہیں غنچے کھلاتی ہے
کہیں مجبور کرتی ہے چمن کو خود پرستی پر
دل آزاد میرا بے نیاز بانگ رہبر ہے
یہ جس رستے پہ لے جاتا ہے اس رستے پہ چلتا ہوں
نہ ڈر تنقید عالم کا، نہ خوف قہر داور ہے
جوانی ڈھالتی ہے مجھ کو جس سانچے میں ڈھلتا ہوں
یہی دن ہیں جوانی کے، محبّت کے مسرّت کے
ضعیفی کو مبارک حوصلے زہد و عبادت کے