جدائی، آہ یہ اک لفظ کتنا یاس آگئیں ہے
تصوّر اس کا امیدوں پہ پانی پھیر دیتا ہے
ہزاروں کوس اس سے منزل آرام و تسکیں ہے
جو اس سے ہو گیا واقف وہ پھر کب چین لیتا ہے
جدائی باغ کی رنگینیوں کو چھین لیتی ہے
شراب و رقص سے محروم کر دیتی ہے انساں کو
جہاں آرائیوں، خود بینیوں کو چھین لیتی ہے
چھپا دیتی ہے مایوسی کی تاریکی میں ارماں کو
یہ سب کچھ ہے، مگر مجبور ہے میرا دل محزوں
محبّت پرورش پاتی رہی ہے اس کے دامن میں
جمال دوست سے مہجور ہے میرا دل محزوں
وہ دشمن دوست تڑپایا تھا جس نے مجھ کو ساون میں
انہیں ہاتھوں میں دیدی ہے عنان آرزو میں نے
بھروسے پر خدا کے چھوڈ دی ہے جستجو میں نے