بہکی بہکی ہیں، نگاہوں کو نہ جانے کیا ہوا
کھوئی کھوئی سی ہیں، راہوں کو نہ جانے کیا ہوا
دل کی رگ رگ میں رواں تھا جن سے خون زندگی
ان تمنّاؤں کو، چاہوں کو نہ جانے کیا ہوا
نا مکمّل تھا فسانہ دھر کا جن کے بغیر
ان گداؤں، بادشاہوں کو نہ جانے کیا ہوا
آسماں سے واپس آئیں، دل میں گھٹ کر رہ گئیں
کیا بتاوں، میری آہوں کو نہ جانے کیا ہوا
معبد ہستی میں تھا جن کو عبدیّت پہ ناز
ان جبینوں، سجدہ گاہوں کو نہ جانے کیا ہوا
بن گئی ہیں دور ساغر بزم رنداں میں ضیاء
ان کی شرمیلی نگاہوں کو نہ جانے کیا ہوا