ستارے آسماں پر مضطرب ہیں، خاک پر ذرے
نہ انکو چین حاصل ہے، نہ انکو چین حاصل ہے
فضا لرزاں، ہوا بے کل، سکوں نا آشنا پتے
پریشاں بہر میں موجیں ہیں اور بے تاب ساحل ہے
گل و لالہ ہیں سینہ چاک، بے چینی کا ماتم ہے
فضا میں تھرتھراتی ہیں نوا یں عندلیبوں کی
اسیر اضطراب و درد و غم یہ بزم عالم ہے
تمناؤں سے ٹکراتی ہیں آہیں نا شکیبوں کی
مجھے بھی فطرت سیماب نے بخشی ہے اک دولت
مرا دل بھی کسی کی یاد میں بےتاب رہتا ہے
حقیقت میں یہی بے چینیاں ہیں باعش راحت
اسی تسکیں کی موجوں میں مرا ہر شعر بہتا ہے
شباب و اضطراب و عشق سے تخلیق ہستی ہے
اسی تشلیش پر قایم نظام کیف و مستی ہے