کہوں میں آہ کیوں کر، مجھ کو تجھ سے پیار ہے میرا
تصور سے ترے دن رات ہم آغوش رہتا ہوں
کچھ ایسا کیف پرور عشق کا آزار ہے میرا
کہ اس نشے میں ہردم بے خود و مدہوش رہتا ہوں
نہ دنیا کی خبر مجھ کو، نہ اپنا ہوش ہے مجھ کو
بس اتنا جانتا ہوں، تو ہے، تیری یاد ہے میرا
نہ فکر عالم فردا، نہ رنج و دوش ہے مجھ کو
محبّت واقعی ہر قید سے آزاد ہے میرا
میں کہہ تو دوں مگر میرا دل مجبور ڈرتا ہے
کہ یہ جرّت نہ باعش ہو پریشانی و وحشت کا
یہی غم میری امیدوں میں رنگ یاس بھرتا ہے
یہی غم راہ بر ہے منزل درد محبّت کا
تجھے معلوم ہی ہے جو میرے دل پر گزرتی ہے
تو پھر کیوں امتحاں لیکر مجھے نا کام کرتی ہے