ظلمت کدے میں غم کے عشرت کی روشنی ہے
امید گا رہی ہے
تعمیر عالم نو تجویز ہو چکی ہے
آزاد زدگی ہے
سوئی ہوئی امنگیں دل میں مچل رہی ہیں
کروٹ بدل رہی ہے
محفل میں ایک رنگیں ہلچل مچی ہوئی ہے
آزاد زندگی ہے
رقصاں ہیں نکہتوں کی پریاں حسیں فضا میں
تدبیر ارتقا میں
پھولوں کی پنکھڑیوں پر شبنم کی آرسی ہے
آزاد زندگی ہے
کیا رنج اس سمے کا جو ختم ہو چکا ہے
فردا کی فکر کیا ہے
اب حال ہی ہے سب کچھ، اب قدر حال کی ہے
آزاد زندگی ہے
تاروں سے گفتگو ہے پھولوں سے ہم سخن ہے
اور شمع انجمن ہے
ترا ضیاء انوکھا انداز شاعری ہے
آزاد زندگی ہے