اپنا سب کچھ تری نظروں پہ نچھاور کر کے
اپنی آنکھیں تری صورت سے میں آباد کروں سانس کی لے ہے کہ منہ زور نشے کے جھونکے
دل کی دھڑکن ہے کہ دستک ہے ترے خوابوں کی
جیسے بے ساختہ نس نس میں لہو رقصاں ہو
جیسے احساس میں بس جائے کسی کی خوشبو جیسے یہ شام ستاروں کی کوئی منزل ہے
جیسے ان لمحوں میں لرزاں ہے تصور کا بدن
جیسے یہ بزمِ سخن بھی ہے کوئی سادہ سی
ایک ناکام سعی تیری ثناء خوانی کی
کس کی جرات ہے کہ تفسیر کرے حسن ترا
تو کہ بت ہو کے بھی غافل نہیں خاموش نہیں
جیسے لمحوں میں اتر آئی ہے صدیوں کی طلب
میری حیرت کا یہ عالم کہ مجھے ہوش نہیں اپنا سب کچھ تیری نظروں پر نچھاور کر کے
اپنی آنکھیں تری صورت سے میں آباد کروں