عشق، جنون، اور خدا کے درمیان
" (Ishq, Junoon, Aur Khuda Ke Darmiyan) -
مجھے جب اس پہ اعتبار ہوا
نہ اقرار ہوا نہ انکار ہوا
وہ بولی تھی ذرا رکو
نہ وہ چلا نہ میں رکا
کیا وہ رشتہ مجھے لے ڈوبتا
مجھے سوارتا, تو کیا خوب تھا
کہتا ہے الہی وہ جنون تھا
یہ عشق ایسا جیسے قوم لوط تھا
میں نے پلٹ کے رب سے کہا تیری بات صحیح
تیری بات اسی جیسے جبرائیل کی وحی
اس غفلت زمانہ میں کوئی یاور نہیں
اس اتش لوط میں سب, مگر میں نہیں
میرے چشموں کے سامنے برپا ہوا کربلا
کیا لڑتا وہاں میں خود یزید تھا
میں نے اٹھایا نیزے پہ قران کو
غفلت کی نیند میں ایسے پڑا جسے حرملا
لکھوں کس قدر کس راہ میں ہوں
ہے جنت و جہنم میرے ہو بہ ہو
ہے خدا کی ذات میری رو برو
دے رہے ہیں ملائک صدا میرے کوبہ کو
چلیں چھوڑ کے میرے ہمسفر
رشک کرتے ہیں اس پہ یہ راہ گزار
لکھتے یہ نظم ہوئے میرے چشم تر
پھر بھی کہتا ہے تو کہ میں ہوں بے خبر
کرتا ہے روح اللہ نظم اختتام بس یہی
ہوئی فوت, اب میں ملوں گا کہیں نہیں
چشم گریا میں ہے کوئی دیکھے نہ کبھی نہیں
پوچھا خود میں میں دیکھا میں وہاں نہیں