نور میں ڈوبا ہوا ہے قلب کا میخانہ آج
دیکھ ٹکراتا ہے پیمانے سے یوں پیمانہ آج
ورنہ یہ ٹھنڈی ہوائیں بد دعا دیں گی ہمیں
کل چلی جانا مری جانِ جہاں رک جانا آج
اور تھوڑی دیر تک بس یونہی شرماتے رہیں
مجھ کو پیارا لگ رہا ہے آپ کا شرمانا آج
اہلِ محفل کے لئے ہو گا تماشے کا سماں
شمع پر قربان ہو جا ئے گا پھر پر وانہ آج
لفظ پھیکے پڑ گئے ہیں حسن کی سرکار میں
تو بتا جانِ غزل کیا دوں تجھے نذرانہ آج
جام اٹھائیں یا کہ اطیب اس کی آنکھوں سے پئیں
ہائے خطرے میں پڑی ہے جراتِ رندانہ آج