قدم انساں کا راہ ِ دہر ميں تھرا ہي جاتا ہے
چلے کتنا ہي کوئي بچ کے، ٹھوکر کھا ہي جاتا ہے
نظر ہو خواہ کتني ہي حقائق آشنا، پھر بھي
ہجوم ِ کشمکش ميں آدمي گھبرا ہي جاتا ہے
خلاف ِ مصلحت ميں بھي سمجھتا ہوں مگر ناصح
وہ آتے ہيں تو چہرے پر تحير آ ہي جاتا ہے
ہوائيں زور کتنا ہي لگائيں آندھياں بن کر
مگر جو گھر کے آتا ہے وہ بادل چھا ہي جاتا ہے
شکايت کيوں اسے کہتے ہو، يہ فطرت ہے انساں کي
مصيبت ميں خيال ِ عيش ِ رفتہ آ ہي جاتا ہے
سمجھتي ہيں مآل ِ گل مگر کيا زور ِ فطرت ہے
سحر ہوتے ہي کليوں کو تبسم آ ہي جاتا ہے