بھری برسات میں، جس وقت آدھی رات کے بادل
سیہ پرچم اُڑاتے ہیں، بُجھا کر چاند کی مشعل
مکاں کے بام و در بجلی کی رو میں جب جُھکتے ہیں
سُبک بوندوں سے دروازوں کے شیشے جب کھٹکتے ہیں
سیاہی اتنی چھا جاتی ہے جب ہستی کی محفل میں
تصوّر تک نہیں رہتا سحر کا، رات کے دل میں
ستارے دفن ہو جاتے ہیں جب آغوشِ ظُلمت میں
لپک اُٹھتا ہے اِک کوندا سا جب شاعر کی فِطرت میں
معاً اک حُور اس روزن میں آ کر مُسکراتی ہے
اِشاروں سے مُجھے اپنی گھٹاؤں میں بُلاتی ہے