کوئی تصویر کسی پیکر کی تلاش میں ہوں
فون کی گهنٹی بجے اور میں قطار میں ہوں
میرے قلم کی لہروں میں ہوں، الفاظ میں ہوں
ایک دیوانگی ہوں اپنی تلاش میں ہوں
ایک ایک پل نئی چاہت نئے فراق ملے
تارابن کر میری تقدیر فلک پر چمکے
صبح ہوتی ہے خواب کی تعبیر لیے
پهر بهی کیا ہے جو مجه کو نظر آتا نہیں
نہ قلم ہے نہ ورق ہے اور نہ لوح جگر
ایک احساس ہے
چپ کے سے نکل پڑتا ہے
گهومتا پهر تا ہے دنیا میں نیا نام لیے
فیس بک پر جو چهلکتا ہے نئے جام لیے
شکل اس کی تو لگے سب کو بہت ہی پیاری
پهر بهی مجه کو وه تنہائی کا غلام لگے
انگلیاں سوچ رہی ہیں قلم چپ چاپ کهڑا
لمس کے ساته مگر قافلہ ایک چلنے لگا