بر قع پہن کر نکلی
ڈگری بھی میں نے لیلی
کمپیوٹر میں نے سیکھا
اور دوسروں سے آگے
میں نے خود کو پایا
امی بھی بہت خوش تھی
ابا بھی بہت خوش
ہاتھوں میں اپنے
میں نے
کوہ طور اُٹھایا
زمانے کو روند دالوں
یہ دل میں
میں نےٹھانا
بن جاؤں میں سکندر
کالے نقاب کے اندر
ہر سانس نے پکارا
موج مستی میں کرنے نکلی
تھیٹر میں جوں ہی پہوچی
ڈنڈے نے مجھے روکا
برقع منع ہے لڑکی
کالے نقاب سے کالا دھواں سا اُٹھا
اُس وقت
وہیں پر
میں نے
برقع اُتار پھیکا