بےرخی بےاعتنائي ہو چکی
آﺆ من جاﺆ لڑائي ہو چکی
اب مرا دل بهی مکدر ہو گیا
اب مری ان کی صفائي ہو چکی
جن کو پاس خاطر صیاد ہے
ان اسیروں کی رہائي ہو چکی
اب تو مل جاﺆ کہ سارے شہر میں
شہرت نا آشنائي ہو چکی
زلف کہتی ہے دل بےتاب سے
میرے پهندوں سے رہائي ہو چکی
ضعف کے ہاتهوں قدم اٹهتے نہیں
ان کی محفل تک رسائي ہو چکی
تم میں خو بنده نوازی کی نہیں
اے بتو تم سے خدائي ہو چکی
او وفا دشمن جفاجو تندخو
ہو چکی بس بےوفائي ہو چکی
اب تو بےخود سے بهی پرده ہے انهیں
بےحجابی خودنمائي ہو چکی