ابرو کا تصور تها شمشیر نظر آئي
گیسو کا خیال آیا زنجیر نظر آئي
یاں فصل بہاراں کو تقریب خزاں دیکها
تمہید خرابی کی تعمیر نظر آئي
ہم اپنے ہی ہاتهوں سے جاں اپنی گنوا بیٹهے
جب موت کے آنے میں تاخیر نظر آئي
سنگ در جاناں پر کی ناصیہ فرسائي
اتنی کہ مقدر کی تحریر نظر آئي
میں محو تجلی ہوں مجه کو تو زمانے میں
ہر شکل میں تیری ہی تنویر نظر آئي
کچه اور نہ بڑه جاﮰ میعاد اسیری کی
کیوں مجه کو رہائي کی تدبیر نظر آئي