Amjad Islam Amjad

4 August 1944 / Sialkot

تو چَل اے موسمِ گریہ - Poem by Amjad

تو چل اے موسمِ گریہ‘ پھر اب کی بار بھی ہم ہی
تری انگلی پکڑتے ہیں تجھے گھر لے کے چلتے ہیں
وہاں ہر چیز ویسی ہے کوئی منظر نہیں بدلا
ترا کمرہ بھی ویسے ہی پڑا ہے‘ جس طرح تُو نے
اُسے دیکھا تھا‘ چھوڑا تھا
"ترے بستر کے پہلو میں رکھی اس میز پر اب بھی
دھرا ہے مگ وہ کافی کا
کہ جس کے خشک اور ٹوٹے کناروں پر
ابھی تک وسوسوں اور خواہشوں کی جھاگ کے دھبّے نمایاں ہیں
قلم ہے‘ جس کی نِب پر رَت جگوں کی روشنائی یوں لرزتی ہے
کہ جیسے سُوکھتے ہونٹوں پہ پپڑی جمنے لگتی ہے
وہ کاغذ ہیں
جو بے روئے ہوئے کچھ آنسوﺅں سے بھیگے رہتے ہیں
ترے چپّل بھی رکھے ہیں
کہ جن کے بے ثمر تلووں سے وہ سب خواب لپٹے ہیں
جو اِتنا روندے جانے پر بھی اب تک سانس لیتے ہیں
ترے کپڑے‘
جو غم کی بارشوں میں دُھل کے آئے تھے
مِری الماریوں کے ہینگروں میں اَب بھی لٹکے ہیں
دلاسوں کا وہ گیلا تولیہ
اور ہچکیوں کا اَدھ گھلا صابن
چمکتے واش بیسن میں پڑے ہیں اور
ٹھنڈے گرم پانی کی وہ دونوں ٹونٹیاں اب تک
رواں ہیں توُ جنھیں اس دن
کسِی جلدی میں چلتا چھوڑ آیا تھا
دریچے کی طرف دیوار پر لٹکی گھڑی
اب بھی‘ ہمیشہ کی طرح‘
آدھا منٹ پیچھے ہی رہتی ہے
کلنڈر پر رُکی تاریخ نے پلکیں نہیں جھپکیں
اور اس کے ساتھ آویزاں!!
وہ اِک مہکارتا منظر‘
وہ اِک تصویر جس میں وہ
مِرے شانے پہ سر رکھّے مِرے پہلو میں بیٹھی ہے
مِری گردن اور اِس کے گیسوﺅں کے پاس ایک تتِلی
خوشی سے اُڑتی پھرتی ہے
کچُھ ایسا سحر چھایا ہے
کہ دل رُکتا‘ ہَوا چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے-"
مگر اے موسمِ گریہ‘
اُسی ساعت
نجانے کس طرف سے تُو چلا آیا
ہمارے بیچ سے گزرا
ہمارے بیچ سے تُو اس طرح گزرا
کہ جیسے دو مخالف راستوں کو کاٹتی سرحد
کہ جس کے ہر طرف بس دُوریوں کی گرد اُڑتی ہے

اُسی اِک گرد کی تہہ سی
تجھے دروازے کی بَیل پر جمی شاید نظر آئے
کوئی تصویر کے اندر کمی شاید نظر آئے
تمنّا سے بھری آنکھیں جو ہر دَم مُسکراتی تھیں
اب اُن آنکھوں کے کونوں میں نمی شاید نظر آئے
142 Total read