ہم ایسے مَرگ طلب بھی نہ تھے محبت میں
کہ جلتی آگ کے دریا میں بے خطر جاتے
(یقین جان‘ مری جاں کہ ہم ٹھہر جاتے)
تمہاری آنکھ کے آنسو تھے‘ سیلِ آب نہ تھا
چھلک بھی جاتے اگر‘ رزقِ خاک ہو جاتے
(مثال قطرۂ شبنم ‘ چمکتے‘ کھو جاتے)
رہا وہ حرفِ وفا جس کی سبز کونپل پر
تمہارے بوسئہ لب سے گلاب جاگے ہیں
(سو وہ گلاب تو کونپل سے کٹ بھی سکتے ہیں)
رہے وہ خواب جو آنکھوں کے آبگینوں میں
دھنک کے رنگ لیے ڈولتے سے رہتے ہیں
(سو ایسے خواب تو آکر پلٹ بھی سکتے ہیں)
سو بات حرفِ وفا کی ہے اور نہ خوابوں کی
نہ ڈولتے ہوئے رنگوں سے پُر گلابوں کی
سمے کے چڑھتے اترتے ہوئے سمندر میں
سب ایک پَل کی حقیقت
سب ایک پَل کا سراب
دلوں میں ترکِ تمنا کا حوصلہ ہو اگر
تو کیسا حرفِ وفا!
اور کہاں کے خواب و گلاب!!
یہ کیسے دشت ِ ندامت میں گھر گئے اے جاں
کہ اِک تو ترکِ تمنا کا حوصلہ بھی نہیں
اور اس پہ یہ بھی قیامت
اگر ..... بفرض محال
تمہاری راہ سے پھرنے کا حوصلہ بھی ملے!
پلٹ کے جائیں کہاں‘ گھر کا راستہ بھی ملے!!