خدائی نیند میں سرشار ہے، برکھا کا موسم ہے
اُفق پر منتشر مہتاب کی سرشار لہریں ہیں
ردائے ١ آسماں میں ننّھے تارے جھلملاتے ہیں
غبارِ مرمریں سا اُڑ رہا ہے صحنِ ہستی سے
چراغاں ہو رہا ہے چاند کے نیلے شبستاں میں
چمن کی ہر کلی سے نور کی مستی چھلکتی ہے
رسیلی بو کی مو جیں٣ اُڑ رہی ہیں سرو و سوسن پر
پرندے سو چکے ہیں جا کے اپنے آشیانوں میں
خموشی کا سماں اِک ہو کا عالم ہے زمانہ پر
نہا کر آئی ہیں اِندر کی پریاں عِطر کے جل سے
سکونِ شب سے ہیں ٹھہری ہو ئی پانی کی نہریں بھی
رُو پہلی رات پر طاری ہے اندوہِ حسیں کو ئی !
زمین و چرخ نے چپ سادہ لی ہے ہر صد ا چپ ہے
یہ بھیگی رات، یہ مستانہ رُت, یہ نور کا عالم
ہوا سے ننھی کرنیں کھیلتی ہیں شاخساروں پر
اِسی سنسان نخلستاں میں اِک اُجڑی عمارت ہے
یہاں وہ بانوئے عفّت نشاں سوتی ہے تربت میں
زمینِ شہدرہ پر ہر طرف کھویا سا عالم ہے
فضا کے دامنوں میں موجزن چاندی کی نہریں ہیں
کہ بحرِ نِیل میں گلہائے زرّیں کھلکھلاتے ہیں
ہوا کی پیالیاں ٢ لبریز ہیں پھولوں کی مستی سے
کہ پریوں نے کہیں موتی بکھیرے ہیں پرستاں میں
در و دیوار سے مہتاب کی شوخی جھلکتی ہے
نشہ کا سا سماں چھایا ہوا ہے سارے گلشن پر
بھیانک سنسنی سی چھا رہی ہے گلستانوں میں
سکوں طاری ہے قدرت کے انوکھے کارخانہ پر
نشے کی موجیں اُڑتی پھرتی ہیں سنسان جنگل میں
کہیں گہرائیوں میں سو چکی ہیں جا کے لہریں بھی
کہ گہر ی فکر میں لیٹی ہو ئی ہے مہ جبیں کو ئی
اِدھر اُجلی فضا چُپ ہے اُدھر ٹھنڈی ہوا چُپ ہے
زمرّد فام نخلستاں پہ برق ِ طور کا عالم
کہ کچھ چینی کی گڑیاں جھولتی ہیں سبز تاروں پر
جہاں دفن اِک شہنشاہِ گرامی کی محبّت ہے
کٹی تھی جس کی ساری عمر آغوشِ حکومت میں
ادب ! اے دل ادب کر! روضہء نور ِجہاں ہے یہ
مقدّس خوابگاہِ ملکہء ہندوستاں ہے یہ