الہٰی ! مجھ کو ایسی نالہ سامانی عطا کر دے!
سروُد آبادِ ہستی ميں ميَں اِک سازِ شکستہ ہوں
اگر تیرے سِوا بھی مدّعا ہو سکتا ہے کوئی!
سوادِ عالمِ حیرت میں ہوں گمراہ مدّت سے
چمن زارِ فنا میں ایک مرغ پر شکستہ ہوں
سکھا دے طفلِ دل کو درس، اخلاص و محبّت کا
کسی سے مجھ کو کینہ ہو، عداوت ہو، نہ نفرت ہو
مرے آغاز میں انجام کی صورت نظر آئے
مصیبت میں بھی صبر وشُکر کے نغمے زباں پر ہوں
مزے دیتی ہے کیا کیا بے قراری کی ادا یا رب
صنم خانے میں ذوقِ وحدت اِک دُشوار منزل ہے
ترا اختر ، تری سرکار میں اِک عرض لایا ہے
جو بزم دہر میں ہنگامہء محشر بپا کر دے!
مرے خاموش تاروں کو ترنّم آشنا کر دے!
تو میرے دل کو یکسر بے نیازِ مدّعا کر دے!
مرے پائے طلب کو اب تو منزل آشنا کر دے!
مجھے قدر آزمائے ذوقِ پروازِ بقا کر دے !
زباں کو بے نیازِ شکوہء مکر و دغا کر دے!
ایاغِ دل کو لبریزِ مئے صِدق و صفا کر دے!
مری ہر ابتدا کو ہم صفیرِ انتہا کر دے!
اسیرِ گیسوئے رسمِ شہیدِ کر بلا کر دے!
مرے دردِ خلش پرور کو دردِ لادوا کردے!
حریمِ معرفت میں بےنیازِ ماسوا کر دے!
اِسے کیا ہو، اگر تو کامیابِ التجا کر دے!