چھا رہی ہوں پستیوں پر دیوداروں کی طرح
اور بلندی پر عقابِ پر فشاں کی شکل میں
اک نگا ہِ بے صدا و بے نشاں کی شکل میں
سر بلندی پائی میں نے کوہساروں کی طرح
کوہساروں سے بھی برتر ابر زاروں ١ کی طرح
حدَِّ آخر میری صورت٢ آسماں کی شکل میں
عظمتوں سے کھیلتی ہوں کہکشاں کی شکل میں
خندہ زن ہوں بزمِ خاکی پر سِتاروں کی طرح
رعد کی صورت گرجتی ہوں بساطِ خاک پر
کانپ اٹھتے ہیں سمندر جس سے وہ طوفاں ہوں میں
سینہء ہستی کی اِک فکرِ شرر افشاں ہوں میں
ہیں قدم میرے زمیں پر سر مرا افلاک پر
صورتِ اندیشہ مستی میں بپھر جاتی ہوں میں
پردہ ہائے ماہ و انجم سے گذر جاتی ہوں میں