کتنی شاداب ہے دنیا کی فضا آج کی رات
کتنی سرشار ہے گلشن کی ہوا آج کی رات
کتنی فیاض ہے رحمت کی گھٹا آج کی رات
کس قدر خوش ہے خدائی سے خدا آج کی رات
کہ نظر آئے گی وہ ماہ لقا آج کی رات
کیوں نہ گلزار میں اٹھلاتی پھر ے موج نسیم
کیوں نہ ہر پھول ہو لبریز بہار تسنیم
کیوں نہ آمادہء افلاک ہو پروازِ شمیم
کیوں نہ ہر ذرّہ بنے جلوہ گہِ طور کلیم
کہ انہیں دیکھیں گے ہم جلوہ نما آج کی رات
آج کیا بات ہے دنیا کے نظارے خوش ہیں؟
باغ میں پھول, سر چرخ ستارے خوش ہیں
ایک بے نام سی سرمستی کے مارے خوش ہیں
ایک میں خوش نہیں،جتنے بھی ہیں سارے خوش ہیں
ہے خوشی چار طرف نغمہ سرا آج کی رات!
غائبانہ جو ہمیں نامے لکھا کرتی تھی
دور سے ہم پہ دل اپنا جو فدا کرتی تھی داد
اشعار جو 'گم نام' دیا کرتی تھی
ہو کے بے پردہ جو پردے میں رہا کرتی تھی
سامنے ہو گی وہی شوخ ادا آج کی رات
جس کی رنگینی سے افکار ہیں مد ہوش, مرے
جس کی الفت سے ہیں اشعار پر از جوش, مرے جس کی فرقت میں خیالات ہیں غم کوش، مرے
جس کے جلووں سے تصوّر ہیں ہم آغوش، مرے
جلوہ دکھلائے گی و ہ حور لقا آج کی رات
داستان دل بےتاب سنائیں گے انہیں
آپ روئیں گے گلے مل کے رلائیں گے انہیں خود ہی پھر رونے پہ ہنس دیں گے ہنسائیں گے انہیں
اور جرّات کی تو سینے سے لگائیں گے انہیں
نت نئے جذبوں کی ہے نشوونما آج کی رات
دل کی رگ رگ میں ہے بیتاب محبت اس کی
آنکھ کے پردے پہ لہراتی ہے صورت اس کی خلوت روح میں آباد ہے الفت اس کی
میرے جذبات پہ طاری ہے لطافت اس کی
اور کچھ یاد نہیں اس کے سوا آج کی رات
نکہت حسن ہو دامان ہوا میں رقصاں
جذبہ عشق ہو رنگین فضا میں رقصاں کیف و سر مستی ہو منظر کی ادا میں رقصاں
نور ہی نور ہو یوں ارض و سما میں رقصاں
کہ خدائی میں اتر آئے خدا آج کی رات
واقف درد دل زار کریں گے ان کو
غم الفت سے خبردار کریں گے ان کو محرم جذبہ اسرار کریں گے ان کو
گود میں لیں گے انہیں پیار کریں گے ان کو
دل کی رگ رگ سے یہ آتی ہے صداآج کی رات
لیکن اظہار خیالات کریں گے کیوں کر؟
شرم آتی ہے، ملاقات کریں گے کیوں کر؟ بات کرنی ہے مگر بات کریں گے کیوں کر؟
ختم یہ خواب کی سی رات، کریں گے کیوں کر؟
آہ یہ آج کی ، یہ خواب نما ، آج کی رات
اے دل ایسا نہ ہو کچھ بات بنائے نہ بنے
حال دل جو بھی سنانا ہے ، سنائے نہ بنے پاس آئیں تو مگر پاس بٹھائے نہ بنے!
شرم کے مارے انہیں ہاتھ لگائے نہ بنے
کہ تصور سے بھی آتی ہے حیا آج کی رات
یوں تو ہر طرح ادب مدّ نظر رکھنا ہے
حسرت دل کا لحاظ آج، مگر رکھنا ہے بے خودی ! دیکھ تجھے میری خبر رکھنا ہے
نازنیں قدموں پہ یوں ناز سے سر رکھنا ہے
کہ تڑپ اٹھے دل ارض و سما آج کی رات
ہم میں کچھ جرّات گویائی بھی ہو گی کہ نہیں ؟
ہمت ناصیہ فرسائی بھی ہو گی کہ نہیں؟ شرم سے دور شکیبائی بھی ہو گی کہ نہیں؟
یوسف دل سے 'زلیخائی 'بھی ہو گی کہ نہیں؟
آج کی رات! اف او میرے خدا، آج کی رات